Tuesday, March 10, 2020

پاکستان کے تعلیمی نظام میں موجود خامیاں اور ان کا حل

تعلیم

تعلیمی نظام پر بات کرنے سے پہلے تھے ہم تھوڑا سا تعلیم کی تعریف پر روشنی ڈال لیتے ہیں کہ تعلیم آخر ہے کیا۔ کسی معاشرے میں اس کی کتنی اہمیت ہوتی ہے؟ اور اس کی تدریس کے کیا کیا طریقے ہوتے ہیں؟ ۔ لفظ تعلیم علم سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں جاننا۔ مطلب کسی بھی چیز کے متعلق خاص معلومات رکھنے کو علم کہتے ہیں۔ تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اہم جزو ہے اس کے بغیر ترقی ناگزیر ہے۔ تعلیم کسی بھی معاشرے یا قوم کے دفاع کا سب سے سستا ہتھیار ہوتی ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ تلوار کی طاقت سے زیادہ طاقت قلم میں ہوتی ہے قلم کی طاقت سے بندہ کسی بھی معاشرے کو یا انفرادی طور پر کسی انسان کو بھی جیت سکتا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی قوم یا معاشرہ تشکیل پاتا ہے تو سب سے پہلی ذمہ داری اس معاشرے کو تعلیم دینا ہی آتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس دنیا میں کئی قوموں نے تعلیم کے بل بوتے پر بے انتہا ترقی کی اور بہت سی قومیں ایسی بھی ہیں جو تعلیم نہ حاصل کرنے کی وجہ سے زوال کا شکار ہوئی۔ حصول تعلیم کسی بھی معاشرے میں اتنا ہی آسان ہوتا ہے جتنا کہ اس معاشرے کا تدریس کا نظام موثر ہوتا ہو۔ ایک موثر تعلیمی یا تدریسی نظام بھی کسی قوم کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اقوام عالم میں دوسرے ملکوں یا معاشرے کے مقابل کھڑے ہو سکیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں جو کہ تعلیمی نظام کے اندر ہی آتے ہیں اور تعلیمی نظام یعنی تعلیم حاصل کرنا تعلیم دوسروں تک پہنچانا یہ سب مل کر تدریسی عمل کہلاتا ہے۔ آج ہم پاکستان کے تعلیمی یاد تدریسی نظام کے بارے میں بات کریں گے کہ اس میں کیا کیا خامیاں ہیں اور ان کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔



تدریسی یا تعلیمی نظام


جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ تعلیم حاصل کرنے یا تعلیم سکھانے کے ایک پورے نظام کو تعلیمی نظام یا تدریسی نظام کہتے ہیں۔ تدریسی نظام کسی بھی قوم کی ترقی کی اکائی ہوتا ہے جس ملک یا قوم کا تدریسی نظام کتنا موثر ہوتا ہے وہ قوم اتنی ہی زیادہ ترقی کرتی ہے۔
قیام پاکستان سے ہی پاکستان میں تعلیم کا فقدان تھا۔ جس کو حل کرنے کے لئے بہت زیادہ کوششیں ہوئیں۔ مختلف حکومتوں نے اپنی تعلیمی پالیسیاں بنائیں اور یہاں تک کہ آج کے دن تک ہم پاکستان میں تعلیم کا معیار کافی بہتر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن پھر بھی ہمارے تعلیمی نظام میں ایسی بہت سی خامیاں موجود ہیں کہ جن کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آئیے ہم ایک ایک کرکے ان خامیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور اس کے بعد ان کے حل کے لیے اقدامات پر بات کریں گے۔



مساوی تعلیمی نظام کا فقدان


اگر ہم بات یہاں سے شروع کریں کہ پاکستان میں ایک تعلیمی نظام ہے تو ہماری بات غلط ہو گی۔ پاکستان میں بحیثیت ایک قوم سب سے بڑی تفریق اسی بات پر ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں ایک نہیں بلکہ کی تعلیمی نظام ہیں۔ اگر ہم صاف صاف بات کریں تو پاکستان کے سرکاری اداروں کا تعلیمی نظام اور ہے جبکہ پرائیویٹ یا نجی تعلیمی اداروں کا تعلیمی نظام اور ہے۔ تو جب ہم ان دو مختلف تعلیمی نظام کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ایک سوال ضرور آتا ہوگا کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ایک ہی قوم میں کچھ لوگوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا نظام اور ہے جبکہ کچھ لوگوں کے لئے اور۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سہولیات سے لے کر ترجیحات تک سب کچھ شامل ہے۔ اس پر مفصل بات ہم بعد میں کریں گے لیکن ابھی صرف اتنا کہ ہم یہ جان لیں کہ تعلیمی نظام کا مساوی نہ ہونا بھی ایک بہت بڑی خامی ہے ہے۔


علاقائی تفاوت


علاقائی تفاوت بھی تعلیمی نظام میں ایک بہت بڑی خامی ہے ۔ اگر ہم پاکستان کے دو صوبوں بلوچستان اور پنجاب کے سکولوں کے درمیان موازنہ کریں تو ہم یہ چیز صاف دیکھ سکتے ہیں کہ بلوچستان کے سکول تعلیم کے میدان میں پنجاب کے سکولوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ جبکہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں بھی تعلیم کا نظام اتنا مضبوط نہیں ہے اس لیے وہاں کی شرح تعلیم باقی صوبوں سے بہت کم ہے۔


فنی تعلیم کا فقدان۔


پاکستان کے تدریسی نظام میں فنی تعلیم کا بہت فقدان ہے۔ فنی تعلیم تدریسی نظام کا ایسا حصہ ہے جو بہت ہی کم وقت میں بہت ہی زیادہ ہنر مند انسان پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت پاکستان اب پاکستان میں بہت سارے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ادارے کھول رہی ہے جو طلبا و طالبات کو بہت ہی کم فیس میں میں عمدہ اور بہت ہی اہم پروگرامز میں تربیت دے رہے ہیں۔ حکومت کی کوششیں رنگ لارہی ہیں اور فنی تعلیم کے اس نظام سے ایسے بہت سے طالب علم فائدہ اٹھا رہے ہیں جو زیادہ لمبی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے یا وہ وہ تعلیمی اخراجات کی بنا پر مختلف یونیورسٹیز یا کالجز میں داخلہ نہیں لے پاتے۔


لڑکیوں کی تعلیم۔


کسی بھی ملک کی اقوام میں خواتین پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لیے وہ یہ ذمہ داری صرف اسی وقت احسن طریقے سے نبھا سکتی ہیں اگر ان میں تعلیم اس معاشرے کے مردوں کے برابر ہو۔ لڑکیوں کا بھی تعلیم پر اتنا ہی حق ہونا چاہیے جتنا کی لڑکوں کا اس لیے کسی بھی قوم میں لڑکیوں کے سکول اور لڑکوں کے سکول برابر ہونے چاہئیں یا ان کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ہونے چاہئیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کو لڑکیوں کی تعلیم میں بہت بڑے مسائل کا سامنا رہا ہے۔
پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے دو بنیادی مسائل ہیں۔ پاکستان میں ایسے کئی علاقے ہیں جہاں پر لڑکیوں کے سکول سرے سے ہی موجود نہیں اس لئے جو لڑکیاں یا والدین جو اپنی اولاد کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں وہ صرف اس بنا پر تعلیم نہیں دلوا سکتے کیونکہ ان کے علاقے میں لڑکیوں کا کوئی سکول نہیں ہوتا۔ اور دوسری سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر ان علاقوں میں سکول موجود بھی ہو جو کہ صرف لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ہوں پھر بھی کئی خاندان ایسے ہیں جو کہ لڑکیوں کو تعلیم دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہی دو بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں خاص کر لڑکیوں کی شرح خواندگی میں بہت فرق ہے بنسبت مردوں یا لڑکوں کے۔ لیکن اب حکومت پاکستان لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دے رہی ہے۔ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب بھی اس معاملے پر بہت ذمہ داری سے اپنا فرض نبھا رہے ہیں اس بات کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے طالب علموں کے لیے پاکستان کا سب سے بڑا سکالرشپ کا پروگرام متعارف کرایا اور اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں میں پچاس فیصد اسد سکندر شپس لڑکیوں کے لئے مختص کئے گئے تھے جو کہ بہت ہی خوش آئند بات ہے۔


وسائل کی عدم دستیابی۔


پاکستان کے تعلیمی نظام میں سب سے بڑی مشکل وسائل کی عدم دستیابی ہے۔ ضرورت کے مطابق وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ایسے بہت سے سکول ہیں جو جو بچوں کو معیاری تعلیم نہیں دے پاتے۔ تعلیمی نظام میں وسائل کی عدم دستیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے لیے جو فنڈز حکومت پاکستان مختص کرتی ہے وہ پاکستان کی جی ڈی پی کا صرف دو فیصد ہیں جبکہ اگر ترقی یافتہ ممالک میں دیکھا جائے تو یہی تناسب 7 فیصد تک ہے۔ اگر ہم آج تعلیم پر زیادہ خرچ کریں گے تو کل ہم ایسی قوم تیار کرسکیں گے جو کہ پاکستان کا نام دنیا میں روشن کر سکے۔ اس لیے بجٹ بناتے وقت حکومت کو تعلیمی نظام کے لئے خاص فنڈز مختص کرنا ہوں گے۔


نا تجربہ کار اساتذہ۔

تعلیمی نظام کے دو اہم رکن ہوتے ہیں تعلیم دینے والا اور تعلیم لینے والا۔ تعلیم دینے والے کو استاد کہتے ہیں اور جو تعلیم کے حصول کے لیے سکولوں میں چاہتے ہیں ان کو طالبعلم کہتے ہیں۔ اگر دیکھا جاۓ تو اس حساب سے تعلیم دینے والے کو اس قابل ہونا چاہئے کہ جو اس کے پاس تعلیم حاصل کرنے آیا ہے وہ اس تک صحیح اور مفصل طریقے سے معلومات پہنچا سکے۔ لیکن افسوس کے ساتھ پاکستان میں تجربہ کار اساتذہ کا فقدان ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو استاد خود اس قابل نہیں ہے کہ وہ درست طریقے سے تعلیم طالبعلم تک پہنچا سکے تو وہ اس تعلیمی نظام کے لیے کس قدر خطرناک ہے۔ ان طالب علموں کا کیا مستقبل ہوگا کہ جن کو استاد ہیں ایسے ملے ہو جو ان کی تعلیمی قابلیت کو نکھار نہ سکتے ہیں۔ طالب علم کے پاس یا فیل ہونے میں اس کے استاد کا بہت کردار ہوتا ہے ہے کیونکہ ایک استاد ہی ہوتا ہے جو کہ طالب علم کی اس طریقہ سے تربیت کرتا ہے کہ وہ آزمائش یہ امتحانات کو پاس کر سکے سکے اور اپنی قابلیت کا لوہا منوا سکے۔ اس معاملے میں حکومت کو سنجیدہ انتظامات کرنے ہوں گے۔ استاد کو کسی بھی قوم کا معمار کہتے ہیں اس لئے معمار کی قابلیت کی کسی قوم کی قابل بنا سکتی ہے۔


Disqus Comments